Search...

Tuesday, 26 August 2025

ہم اور ہمارے بزرگوں کی زندگیوں میں فرق

ہم اور ہمارے بزرگوں کی زندگیوں میں فرق

آج ربیع الاول مبارک کی دوسری تاریخ ہے ،مقدس شب وروز ہیں ۔ میرے والد صاحب کا انتقال گذشتہ سال 26          اگست  کو ہوا   ،  یوں  اُن کی پہلی برسی ہے۔والد صاحب نے ایک بھر پور عمر بسر کی اور اِس دنیائے آب وگِل میں اللہ پاک نے اُنہیں ایک صدی (1924 تا 2024 ) کی صحت مند زندگی سے نوازا۔ 1924 تا 1974 اُن کی زندگی کا سنہری دور  رہا جب ہمارا آبائی علاقہ آباد تھا ۔ہماراآبائی گاؤں   توی   کا شمار تربیلہ کے خوشحال ترین دیہاتوں میں ہوتا تھا۔1974 میں تربیلہ ڈیم بنا تو لوگوں کے جائز معاوضے ،محکمہ حصول اراضی (واپڈا)کے کرپٹ اہلکاروں  کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ سوائے ایک دو دیہات کے باقی سیکڑوں دیہات کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی ظلم ہو ا ۔ والد صاحب مرحوم نہایت حوصلہ مند انسان تھے انہوں نے 1974 کے بعد کے پچاس سال کی زندگی میں بھی بھر پور جدوجہد جاری رکھی۔

جب ہم اپنے بزرگوں کی برکت والی زندگی پر غور کرتے ہیں تو کچھ ایسے اوصاف نظر آتے ہیں کہ جن کا تسلسل بعد کی نسلوں میں بھی جاری رہنا ضروری ہے ۔ جیسے یہ کہ میں نے اپنے والد صاحب کو فرقہ پرستی ، رنگ نسل یا لسانی تعصبات سے ہمیشہ دور پایا ۔ اُن کی ایک صدی کی زندگی میں سے بعد کی نصف صدی میں اُن کے زیر سایہ رہا اور میں نے کبھی اُن کی زبان سے کسی کو گالی نہیں سنی ۔ہر بندے کا احترام کرتے تھے ۔انتہائی محنتی انسان تھے ۔میں نے کبھی اُن کے بازو پر بلڈ پریشر کا آلہ لگا نہیں دیکھا نہ ہی کبھی شوگر چیک کرانے کی نوبت آئی تھی ،زندگی کے آخری سال تک انہوں نے کبھی چھڑی کا سہارا نہیں لیا ،چشمہ نہیں پہنا اور 32 دانتوں میں سے صرف ایک دانت کم تھا جس کا پتہ نہیں چلتا تھا صحت کا ایسا معیار میں نے حکیم سعید ؒ   کے ہاں دیکھا تھا جب وہ نشتر ہال پشاور میں ایک تقریب میں تشریف لائے تھے ۔

   میں نے اپنے بزرگوں کو دعاؤں میں ہمیشہ فراخدلی برتتے دیکھا ہے ،جیسے یہ کہ رمضان شریف یا دیگر مقدس ایام میں جب بھی وہ دُعائیں مانگتے تو نبی کریم ﷺ کے اُن امتیوں کو دعاؤں میں یاد رکھتے کہ جن کے پیچھے اُن کا کوئی ہاتھ اُٹھانے والا نہیں ہوتا ۔فراخدلی کے اِس پہلو سے بھی وہ غفلت نہیں برتتے تھے ۔ہمارے لوگوں کے حصے میں آنے والی شریعت اور تصوف دونوں افغانستان سے آئے جن میں سادگی اور پختگی زیادہ تھی کیونکہ اسلامی روایت آنحضرت ﷺکے مدنی دور سے ہی  افغانستان میں قائم ہو چکی تھی ۔جن تصورات کا ہندوستانی تڑکا لگا اُن سے فرقہ پرستی نے جنم لیا ۔

 جہاں تک صحت اور طویل عمر کا معاملہ ہے ، میرا ذاتی مشاہدہ یہی ہے کہ یہ دونوں معاملات ہماری عادات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ صھت کے معاملے میں جو لوگ بلا وجہ حساس ہو جاتے ہیں وہ ڈاکٹروں  کےہتھے چڑھ کر اپنے جسم میں بلا ضرورت کیمیکل انڈیلتے چلے جاتے ہیں جو اُن کے جسم کے قدرتی عناصر کی ترتیب کو پریشاں کر دیتے ہیں بقول ِ چکبست نرائن:

              زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہور ِترتیب                 موت کیا ہے ؟ انہی اجزا کا پریشاں ہونا

 بیماری ساکن (Static)چیز نہیں ہے بلکہ متحرک (Dynamic)چیز ہے یہ ایک حالت میں نہیں رہتی یا کم ہو گی یا بڑھے گی ۔ہمارے بزرگ بیماریوں کے کم ہونے اور ختم ہونے کا یقین رکھتے تھے اور اللہ پاک پر کامل بھروسہ رکھتے تھے ۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ  ربیع الاول مبارک کی اِن بابرکت ساعتوں کے طفیل ہمارے تمام مرحومین کی کامل مغفرت فرمائے اور عالمِ اسلام کی مشکلیں آسان فرمائے۔                                                 www,khairkhabar.com           خان زادہ خان   (26 اگست 2025 )



No comments:

Post a Comment